مرج البحرین
بامحاورہ مستند اردو ترجمہ قرآن
از: مولانا سلیم الدین شمسی
پیشکش: طوبیٰ ای لائبریری
MARAJ AL BAHRAIN
BAMUHAWARAH MUSTAND URDU TARJUMA QURAAN
BY: MAULANA SALEEM U DEEN SHAMSI
Post No: 65
TOOBAA E_LIBRARY
مزید کتب کے لیئے دیکھیئے :قرآنیات
دو سو سے زائد کتب برائے :فہمِ قرآن
بسم الله الرحمن الرحیم
یہ ترجمہ کیوں ؟
اردو ترجمہ کی تاریخ حضرت شاہ عبد القادر دہلوی سے شروع ہوتی ہے، شاہ صاحب کے ترجمے کے بعد جو ترجمےلکھے گئے ہیں وہ قریب قریب آپ ہی کے ترجم سے ماخوذ ہیں اس وقت اہل سنت والجماعت کے ہاں جو ترجمے زیادہ تر پڑھے جاتے ہیں وہ چند ہیں :شاہ عبدالقادر دہلوی،شاہ رفیع الدین ،مولانا اشرف علی، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کا ترجمہ...... یہ ترجمے تحت اللفظ اور بین السطور ہیں جس کے سبب عوام ان سے کم ہی استفادہ کر سکتے ہیں چنانچہ ان ترجموں کے باوجود ایسے ترجمے کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے جو بین السطور اور تحت اللفظی مشکلات سے آزاد ہو۔ اس اہم ضرورت کی تکمیل اور اس مشکل کا حل کسی نئے ترجمے سے تو ممکن ہی نہیں کیوں کہ قرآن فہمی کے لئے جس علم و فضل اور زہد و تقویٰ کی ضرورت ہے وہ آج کہاں ہے ؟ ایک طرف تو عوام الناس کے لئے بین السطور اور تحت اللفظ ترجمہ سے قرآن فہمی میں اشکال اور دوسری طرف کسی نئے ترجمے کا وجود امر محال ان دو حالتوں کے درمیان تیسرا مناسب اور معقول طریقہ یہی ہو سکتاتھا کہ سلف صالحین کے کسی ایک ترجمہ کو محاوراتی صورت میں ترتیب دیا جائے ۔
اس مقصد کے لئے کسی ایک ترجمہ کا انتخاب کرنا پہلا مرحلہ تھا۔ انتہائی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی ایک ترجمہ کو با محاورہ مرتب کر دینے سے تحت اللفظ اور بین السطور کی شکل ایک حد تک حل ہو جاتی ہے مگر اردو کا حقیقی حسن محجوب ہی رہتا ہے اور وہ تشنگی بھی دور نہیں ہو پاتی جو اہل ذوق اور اہل زبان کو کسی نئے ترجمے کی تلاش و جستجو پر مجبور کرتی ہے اس لئے ضروری ہوا کہ کم از کم دو ترجموں کے موزوں اور خوبصورت جملے ایک ترجمہ کی شکل میں مرتب کئے جائیں ۔
اب ایسے دو ترجموں کو منتخب اور مخصوص کرنا تھا جو معتبر اور مستند ہونے کے ساتھ، مسلکی اختلافات اور فرقہ وارانہ اشارات سے پاک وصاف ہوں ۔ مذکورہ بالا شرائط پر جو ترجمے پورے اترتے ہیں اور جو اہل علم کے نزدیک دین میں سند اورحجت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں ایک ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی اور دوسرے حضرت شیخ الہند مولانامحمود الحسن دیوبندی کا ہے۔میں نے اس سلسلے میں بار بار استخارہ کیا اور ہر بار ذہن انہیں دو ترجموں پر مرکوز ہوا۔ اللہ تعالی نے مدد فرمائی اور ان دو ترجموں سے تیسرا تر جمہ مرج البحرین بن کر نکل آیا جو آپ کے سامنے ہے ۔
دو ترجموں کے امتزاج سے زبان کی شگفتگی دو بالا ہوگئی ہے اور ترجمہ کی عبارت میں اس قدر حسن اور دل کشی آگئی ہےکہ ایک صفحہ پڑھ کر مکمل ترجمہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے ۔
احقر نے یہ ترجمہ سب سے پہلے پاکستان کے عظیم اور ممتاز جدید عالم استاذ العلماء حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مظلہم العالی کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے جگہ جگہ سے ملاحظہ فرمایا اور بہت پسندکیا اور اپنی قیمتی رائے سے نوازتے ہوئے ترجمہ کا نام "مرج البحرین"تجویز فرمایا، اسی اثناء میں قاسم العلوم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند بھارت سے تشریف لے آئے اور محترمی ومکرمی جناب قاری نے زاہر قاسمی صاحب کے مکان پر قیام فرما ہوئے ۔ احقر نے ترجمہ کے مسودات حضرت مدظلہ العالی کے سامنے پیش کیئے۔ آپ نے بھی ترجمہ بہت پسند فرمایا، اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مد ظلہم العالی کی رائے عالیہ کے مطابق دونوں ترجموں کا نام "مرج البحرین " قرار دیا ، ترجمہ کی امتیازی خصوصیات کے پیش نظر ریڈیو پاکستان کے مشہور مفسر اور متجر عالم دین حضرت علامہ سیدمحمد رضی صاحب مجتہد سے اظہار رائے کی درخواست کی تو علامہ صاحب نے انتہائی بالغ النظری اور وسیع القلبی کے ساتھ ترجمہ کو سراہا اور اپنی قیمتی رائے عنایت فرمائی۔
بہر حال ترجمہ مرج البحرین جس صاحب علم و فضل نے دیکھا بہت پسند کیا۔ برسبیل تذکرہ ان مشکلات اور نا مساعد حالات کو مختصراً عرض کر دیا جائے جو قرآن مجید کے اس پہلے ایڈیشن کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں پیش آتے رہے میرے لیئے طباعت و اشاعت کا مرحلہ نفس طباعت کی رو سے کوئی نیا اور انوکھا کام نہیں تھا مگر قرآن پاک کی طباعت و اشاعت بجا ئے خود ایک اہم اور انتہائی نازک کام ہے۔ معمولی سی غفلت دنیا و دین کے خسارے کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کو انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے انجام دینا تھا۔ ترجمہ کی ترتیب و تہذیب پھر کتابت کے مرحلے میں کاتبین حضرات سے نمٹنا، کتابت کے بعد عربی متن اور تصحیح در تصحیح کے منازل طے کرنا اور پریس سے متعلق جملہ معاملات کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا وغیرہ وغیرہ ایسے مشکل اور پرپیچ مسائل ہیں جس سے پہلا عہدہ برا ہو نا فرد واحد کے بس کی بات نہ تھی اگر قدم قدم پر تائید غیبی شامل حال نہ ہوتی تو یہ عظیم کام پائے تکمیل تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس سلسلے میں عزیزم میاں قاری حافظ محمد علیم الدین سلمہ جو میرے برادر خورد ہیں ان کی پر خلوص معاونت دست راست ثابت ہوئی ۔ عزیزم سلمہ نے کتابت تصحیح اور دیگر انتظامی امور میں نہ صرف معاونت کی بلکہ وقتا فوقتا کوتا ہیوں اور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرائی جن کی تصحیح بار بار نظر ثانی کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔
آخر میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ زیر نظر مترجم قرآن مجید کی اشاعت کا مقصد کاروبار یا مفاد عاجلہ نہیں ہے بلکہ اصل غرض عامتہ المسلمین تک قرآنی دعوت کو پہنچانا ہے جو کام اللہ کے لئے اور اس کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل ہوتی ہے قرآن پاک کی اشاعت میں سب سے بڑا مسئلہ سرمایہ کا ہے لیکن جب حق تعالیٰ شانہ کسی نیک کام کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے تو اس کیلئے کامیابی کے راستے کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔ والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا: جو ہماری راہ میں جدو جہد کرتے ہیں ہم ضرور بالضرور ان کو کامیابی کے راستوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان طلب گاران رضاء الہی و نیز ان کے والدین اور برادران کو اپنے بندگان خاص کے زمرے میں شامل فرمائے اور جن جن حضرات نے اس سعی مبارکہ میں حصہ لیا ہے ان کے حق میں اس سعی کو باعث خیر و برکت اور نجات کا ذریعہ بنائے اورتمام مسلمانوں کو اس کارخیر سے نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین
محمد سلیم الدین شمسی
30 نومبر1974ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں